ہم ایک رد شدہ عہد میں زندہ ہیں
ایک ناتمام دوڑ ہے جس کا اختتام صرف موت پر ہی ہوتا ہے
ہم میں سے ہر شخص اپنے اپنے شعبے میں قارون و شداد بننا
چاہتا ہے
ایک چھوٹا سا ٹھیکیدار ملک ریاض بننا چاہتا ہے
یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس مقام پر پہنچنے کیلیے اُس نے جانے کتنے لوگ بےگھر
کیے
کتنے خاندانوں کے سر سے سایہ چھینا
ہر نیا کمیشنڈ افسر عاصم سلیم باجوہ بننا چاہتا ہے ، چاہے اُسکے لیے اپنے حلف سے غداری کر کے انگور اڈا کا پورا علاقہ ہی دشمن کو کیوں نہ دینا پڑے
بین الاقوامی اثاثے ، رعب ، دبدبہ اور طاقت چاہیے کسی بھی قیمت پر
نئے بھرتی ہونے والے
منصفین کی بیشتر تعداد ثاقب نثار و آصف کھوسہ بننا چاہتی ہے
چاہے اُسکے لیے انصاف کا ترازو ہی کسی آمر کے آگے گروی رکھنا پڑے
ہم سب ایک ردے ہوئے عہد میں زندہ ہیں
جہاں روایات ، اقدار ، اصول کی باتیں واٹس ایپ سٹیٹس اور ٹویٹر پر ٹویٹس میں ہوتی ہیں
عملی زندگی میں نہیں
دینی مدارس و تعلیم گاہوں نے دماغی
اپاہج پیدا کیے ہیں اور علماء مشائخ نے صرف فرقہ واریت دی ہے
ان تمام سطروں کا نچوڑ جون ایلیا نے کچھ یوں بیان کیا کہ
No comments:
Post a Comment