Tuesday, 27 November 2018

عورت پاؤں کی جوتی یا دیوی؟


پچھلے کچھ دن سے کراچی حملے پر وائرل ہونے والی خبروں میں سے ایک خبر "خاتون ایس ایس پی سوہائے عزیز" کی 
بہادری کی بھی تھی
جس پر حسبِ توفیق و عادت ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے دو نہایت مختلف نظریے ابھر کر سامنے آئے
ایک وہ طبقہ جو آزاد خودمختار عورت کو دیکھ کر ویسے ہی برداشت نہیں کر سکتا اور جِن کے نزدیک ایک باروزگار
عورت خواہ وہ کسی بھی شعبے میں ہو "فاحشہ" و بدکردار ھے.. یا بیرونی طاقتوں کی آلہ کار ھے


ایک طبقہ وہ ھے جو کسی بھی عورت کی فرض شناسی یا معمولی قسم کے کام کو بھی ایسے پیش کرتا ھے جیسے وہ 
عورت تمام خواتین کیلیے مشعلِ راہ ھے اور ہماری تمام خواتین کو اُس کی تقلید کرنی چاہئے

اِس متفرقانا سوچ کی بہترین مثال ملالہ یوسفزئی ہے





 جس کے بارے میں بھی معاشرے میں دو ہی سوچیں پائی جاتی ہیں

ایک یہ کہ وہ ہماری بچیوں کیلیے بہادری کی بہترین مثال ہے اور دوسری یہ کہ وہ یہودیوں یا ہندؤوں کی آلہء کار ھے جس کی وجہ سے اسے برطانیہ میں قیام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا اور اسلام دشمن قوتوں نے ملالہ کی سرپرستی کی

جبکہ میرے نزدیک ملالہ ہو یا سوہائے عزیز دونوں انسان ہیں اور دونوں نے وہی کیا جو وقت کی ضرورت تھا
ہمارا معاشرہ اِتنا گھٹن ذدہ اور تنگ نظری کا شکار ہو چکا ہے کہ ہر شے پر کسی نا کسی قسم کا "لیبل" لگانا ضروری 
سمجھتا ہے

عورت یا مرد کی تفریق سے باہر نکل کر سوچنا تو جیسے ممکن ہی نہیں


ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ھے کہ یاں تو یہ عورت کو فاحشہ بنانے پر مجبور ھے یا پھر دوسرا نیو فیمینسٹ طبقہ عورت 
کو دیوی بنانے میں مصروف ھے

عورت کو انسان سمجھنے اور انسانی برتاؤ رکھنے کے ترویج نہ کوئی دیتا اور نا ہی کوئی ایسی سوچ کو پروان چڑھنے دیتا ھے

شاید اُس کے وجہ ایک یہ بھی ھے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کو ہمیشہ زیرِ عتاب ہی دیکھا گیا ھے ، کسی نہ کسی طرح اور جب یہ زیرِ عتاب عورت مرد کی قائم شدہ حدیں پھلانگ کر اپنے فیصلے خود کرنا چاھے تو
 ہمارے مردوں کی "غیرتیں" خطرے میں پڑ جاتی ہیں

عورت کو مجبور کر دیا جاتا ھے کہ یا تو وہ تو پاؤں کی جوتی بنے یا پھر مرد کی چوٹی پر چڑھ کر ناچنے والی دیوی
درمیانہ مقام تو ہم مردوں کو قبول ہی نہیں!